دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی کا کہنا ہے کہ پولیس ملزم کو گرفتار نہیں کررہی ہے اور پولیس ضد کررہی ہے کہ اغواء کا کیس نہیں ہے۔
دعا زہرا کے والد مہدی کاظمی نے اپنے وکیل جبران ناصرکے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سپیریم کورٹ کا شکر گزار ہوں ، پوری پاکستانی کی عوام میرے لیے دعائیں کی شکر گزار ہوں، ڈھائی ماہ جس قرب میں گزارے میں جانتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس ٹھیک تفتیش کرے اور تمام ملزمان گرفتار ہوں تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات نہ ہوسکیں ، بیٹی کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنی محبت کا ثبوت دیا کہ میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں اور آئندہ بھی اسی طرح پورے گھر والے کھڑے رہیں۔
دعا ذہرہ کے والد کا کہنا تھا کہ ہم نے بچوں کی رہنمائی کرنی ہے ، شفقت سے بچوں کے معاملے میں پیش آئیں ،کل کو آپ کے ساتھ بھی اس طرح کا واقعہ پیش آ سکتا ہے ، کوئی قانون غیر اسلامی ہے یا نہیں اس کا جائزہ فیڈرل شریعت کورٹ نے لینا ہے جب کہ پہلے دن سے موقف ہے کہ اس کیس تفتیشی افسر ٹھیک نہیں ہے، پولیس ملزم کو گرفتار نہیں کررہی ہے اور پولیس ضد کررہی ہے کہ اغواء کا کیس نہیں ہے ، تفتیشی افسر کی تبدیلی کے لیے خط لکھ چکا ہوں۔
خیال رہے کہ مہدی کاظمی اور ان کی اہلیہ کا موقف تھا کہ دعا زہرہ کی عمر 13 سال 11 ماہ کچھ دن تھی تاہم سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والے 10 رکنی میڈیکل بورڈ نے آج رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس کے مطابق لڑکی کی عمر 15 سے 16 سال کے درمیان ہے جب کہ ڈینٹل ایگزمینیشن کے مطابق 13 سے 15 سال کے درمیان میں ہے۔
اس سے قبل سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر کیے گئے میڈیکل ٹیسٹ میں اس بات کا تعین کیا گیا تھا کہ دعا کی عمر 17 سال ہے۔
بعد ازاں سید مہدی کاظمی کے وکیل جبران ناصر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ میڈیکل رپورٹ میں دعا کی عمر 15 سال کے قریب بتائی گئی ہے لہٰذا لڑکی کے بیانات غلط ثابت ہوئے ہیں۔
جبران ناصر نے نشاندہی کی کہ آج کی میڈیکل رپورٹ دعا کے والدین کے موقف کی تائید کرتی ہے اور اس وجہ سے یہ کیس اغوا کے ضمرے میں آتا ہے جب کہ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ 16 سال سے کم عمر میں شادی کرنا جرم ہے اور 16 سال سے کم عمر کے بچے کے ساتھ کسی بھی طرح کے جسمانی تعلق کو جنسی جرم تصور کیا جاتا ہے۔
جبران ناصر کا کہنا تھا کہ جس گاڑی میں دعا زہرا گئی اس کا نمبر نہیں لیا ، ٹیکسی والے سے متعلق کوئی تفتیش نہیں کی گئی ہے ، کچھ افسران معطل اور کچھ کے تبادلے ہوگئے تھے جب کہ نکاح کی تاریخ بھی الگ الگ بتائی جارہی ہے، کیس کو دبانے کے لیے تفتیش کی جارہی ہے لیکن ہم عدالت کو صیح طرح سے گائیڈ کریں گے۔
پس منظر
واضح رہے کہ رواں سال 16 اپریل کو کراچی کے علاقے گولڈن ٹاؤن سے 14 سالہ لڑکی دعا زہرہ لاپتا ہوگئی تھی جس کے بعد پولیس نے اس کی تلاش کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے بھی مارے تھے، تاہم پولیس دعا زہرہ کو تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔
بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے دعا زہرہ کے اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی کراچی سے تفیصلی رپورٹ طلب کی تھی تاہم سندھ پولیس دعا زہرہ کو تلاش کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی تھی۔
26 اپریل کو پنجاب پولیس کو دعا زہرہ اوکاڑہ سے مل گئی تھیں، جس کے بعد انہیں لاہور میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی پتا چلا تھا کہ دعا زہرہ نے ظہیر نامی لڑکے سے شادی کرلی ہے۔ مجسٹریٹ نے دعا زہرہ کو دارالامان بھیجنے کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں آزاد شہری قرار دیا تھا۔
دعا زہرہ کی جانب سے ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا گیا تھا جس میں دعا نے کہا ’’میرے گھر والے زبردستی میری شادی کسی اور سے کروانا چاہتے تھے اور وہ مجھے مارتے پیٹتے تھے، مجھے کسی نے بھی اغوا نہیں کیا‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنی مرضی سے گھر سے آئی ہوں اور اپنی پسند سے ظہیر سے شادی کی ہے جب کہ میرے اہل خانہ میری عمر غلط بتا رہے ہیں، میں 14 سال کی نہیں بلکہ بالغ ہوں، میری عمر 18 سال ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں