افغانستان میں بدھ کو آنے والے زلزلے کے بعد امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ بارش کے سبب امدادی کارکنوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ لوگ تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
زلزلہ زدہ علاقے پہلے ہی طوفانی بارشوں سے متاثر تھے جن کی وجہ سے پہاڑی چٹانیں اور مٹی کے تودے گرے جو اب امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ امدادی کارکن متاثرہ علاقوں میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچے۔
حکام کے مطابق پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع پکتیکا صوبے میں سب سے زیادہ نقصان ہوا جہاں کم از کم ایک ہزار افراد مارے گئے۔ پکتیکا صوبے میں محکمہ اطلاعات اور ثقافت کے سربراہ محمد امین حذیفہ نے صحافیوں کو بتایا کہ بڑی تعداد میں جاں بحق ہوئے افراد کی تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے جن میں سے اکثر کی حالت نازک ہے۔ لوگ تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
بدھ کو آنے والے تباہ کن زلزلے میں جاں بحق افراد کی تعداد بتدریج بڑھتی رہی کیونکہ دور دراز پہاڑی علاقوں تک رسائی کافی مشکل تھی۔ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے خبردار کیا تھا کہ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ عالمی ایجنسی مدد کے لیے پوری طرح فعال ہے۔ زلزلہ زدہ علاقے میں طبی امداد کی ٹیمیں تعینات کر دی گئی ہیں جبکہ ادویات، خوراک، ٹراما کٹس فراہم کی جا رہی ہیں۔ ان کے علاوہ ہنگامی شیلٹر بھی بنایا گیا ہے۔
ہمسایہ ملک پاکستان نے افغانستان کے زلزلہ متاثرین کے لیے امداد روانہ کی ہے۔ پاکستان کے این ڈی ایم اے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے سات ٹرکوں میں خیمے، کمبل اور ادویات روانہ کی ہیں۔ ایران اور بھارت نے بھی افغانستان کے زلزلہ متاثرین کے لیے امداد بھیجنے کے اعلانات کیے ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب آنے والے زلزلے کی شدت 6.1 تھی۔ زلزلے کے جھٹکے پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے تھے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں